جب سالک راہِ طریقت میں قدم رکھتا ہے اور ذکر و شغل کے ذریعے معرفت الہیٰ کا خواہاں ہوتا ہے تو اُس کے دونوں دشمن یعنی شیطان اور نفس اس کو راہ ِحق سے ہٹانے اور عملِ خیر سے روکنے میں کوشاں ہو جاتے ہیں جنہیں اصطلاحاتِ تصوف میں خطرات کہتے ہیں۔
معرفت الہیٰ کے حصول،نفسانی و شیطانی وساوس و خطرات سے نجات حاصل کرنے کے لیے تصور شیخ بھی ایک مفید اور مجرب نسخہ ہے۔
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں کہ وصول الی اللّٰه کے طریقوں میں تصورِ شیخ سے بڑھ کر کوئی طریقہ نہیں۔
شیخ کی صورت اور اس کے روحانی کمالات کے زیادہ سے زیادہ تصور کرنے سے شیخ سے محبت پیدا ہو جاتی ہے اور نسبت قوی ہوتی ہے اور نسبتِ قوی سے طرح طرح کی برکات حاصل ہوتی ہیں ٫،
0 Comments